Sunday 4 September 2011

قطعات از انور مسعود

قطعات ماخوذ از قطعہ کلامی

خوشحال گھرانہ

شعبہ ضبط ولادت کا یہ مقصد ہے فقط

دل گرفتہ،غمزدہ، آزردہ جاں کوئی نہ ہو

پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

بندو بست دوامی

ہر اک چیز فانی ہے مٹ جائے گی

ہے یارا کسے اس کی تردید کا

مگر پھر بھی باقی رہے گی جو شے

وہ ہے محکمہ ضبط تولید کا

حسن انتظام

ہر ایک عہد میں زندہ ہے میر کا مصرعہ

کسی سے جس کی صداقت ڈھکی چھپی نہ رہی

نظام برق لیا واپڈا نے ہاتھوں میں

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

گرانی کی گونج

تیور دکاندار کے شعلے سے کم نہ تھے

لہجے میں گونجتی تھی گرانی غرور کی

گاہک سے کہ رہا تھا ذرا آئینہ تو دیکھ

کس منہ سے دال مانگ رہا ہے مسور کی

باتین اور ملاقاتیں

آءو اس کے اصل گورے رنگ سے

اب تصور میں ملاقاتیں کریں

آءو پھر ماضی کی یادیں چھیڑدیں

آءو خالص دودھ کی باتیں کریں

جواب باصواب

استاد نے شاگرد سے اک روز پوچھا

ہے جمعہ مبارک کی فضیلت کا تجھے علم

کہنے لگا شاگرد کہ معلوم ہے مجھ کو

ریلیز اسی روز تو ہوتی ہے نئی فلم

ترکی بہ ترکی

اپنی زوجہ سے کہا اک مولوی نے نیک بخت

تیری تربت پہ لکھیں تحریر کس مفہوم کی

اہلیہ بولی عبارت سب سے موزوں ہے یہی

دفن ہے بیوہ یہاں پر مولوی مرحوم کی

انشورنس ایجنٹ

آپ کرائیں ہم سے بیمہ چھوڑیں سب اند یشوں کو

اس خدمت میں سب سے بڑھ کر روشن نام ہمارا ہے

خاصی دولت مل جاءے گی آپ کے بیوی بچوں کو

آپ تسلی سے مر جائیں باقی کام ہمارا ہے

پدر تمام کند

بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہو سکتا نہیں

ہم نے سوکھے دودھ کا ڈباجو ہے رکھا ہوا

گھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لئے

کام کرنے کے لئے ابا جو ہے رکھا ہوا

کلچرڈ

ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور

طبیعت سخت متلانے لگی ہے

مہذب اس قدر میں ہو گیا ہوں

کہ دیسی گھی سے بھی بو آنے لگی ہے

No comments:

Post a Comment