Monday 5 September 2011

تعارف حضرت مولانا محمد عبدﷲشاہ صاحب ترمذی

حضرت مولانا محمد عبدﷲشاہ صاحب ترمذی

حضرت سید عبدﷲ شاہ ترمذ ی اپنے وقت کے جید عالم دین درو یش منش اور ایک باخدا ہستی تھے نسبی طور پر آپ کا تعلق سادات کے گھرانے سے تھا جبکہ روحانی رشتہ میں حضرت شاہ ابو سعید دہلویؒ سے منسلک تھے ۔
حضرت عبدﷲشاہ ترمذیؒ کا اصل خاندان صدیوں قبل ترمذ میں اقا مت پذ یر تھا آپ کے آباؤاجداد اسی شہر ترمذ میں سکو نت کی وجہ سے ہی ترمذکی نسبت اپنے نام کے ساتھ لکھتے رہے خاندان میں یہ بات مشہور ہے کہ شاہ ہند تغلق شاہ کے زمانہ میں ''ترمذ'' سے سادات کا جو قافلہ ہجرت کرکے ہندوستان (دہلی ) میں آیاتھا آپ کے آباؤاجداد بھی اس قافلہ میں شامل تھے جوعرصہ دراز تک ہندوستان کے مختلف شہروں میںرہائش پذیر رہے آخر میں یہ خاندان پنجاب میں پہنچا اور وہاں سے پھر ہندوستان ہجرت کی، اس خاندان میں حضرت عبداﷲ شاہ صاحب موصوف ہی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے ضلع کرنال کے قصبہ گمتھلہ گڈھو میں سکونت اختیار فرمائی۔

اسم گرامی اور تعلیم وتدریس

ّ آپ کا اسم گرامی محمد عبدﷲ اور والد کا نام خیر محمد تھا،آپ ١٢١٣ھ میں پیداہوئے ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے علاقہ میں ہی حاصل کی پھر وہاں سے مزید تعلیم کا شوق آپ کو دہلی لے آیا جہاں آپ نے دینی تعلیم کی تکمیل فرمائی اور ا یک یگانہ روزگار ممتاز عالم دین کی حیثیت سے دینی خدمات میں مصروف عمل ہوئے یہ وہ دور تھا جب حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دھلوی قدس سرہ (المتوفیٰ ١١٧٦ھ) کے فرزند گرامی حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃاللہ علیہ (المتوفیٰ ١٢٣٩ھ) مسند حد یث پر جلوہ افروز تھے اوردہلی اس زمانہ میں علم حدیث کا ایک بڑا مرکز تھا۔آپ کے حالات میں یہ تصریح نہیں مل سکی کہ آپ نے حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی یاحضرت شاہ اسحاق رحمۃ ﷲعلیہماسے اکتساب فیض کیاہے یانہیں،لیکن زمانہ بہرحال انہی حضرات کاتھا۔
اس کے بعد آپ کی زندگی کازیادہ زمانہ گمتھلہ

گڈھو میں گزرا اور وہیں
تعلیم کے ساتھ ساتھ رشد وہدا یت کاسلسلہ جاری رکھا روحانی سلسلہ میں آپ حضرت شاہ ابو سعید دہلوی رحمۃﷲ علیہ سے وابستہ تھے اس زمانہ میں چونکہ باقاعدہ درسگاہو ں اور مدارس و جامعات کا اس علاقہ میں رواج نہ تھا بلکہ علمی پیا س بجھانے کیلئے طلبہ اساتذہ کرام اور نابغہ روزگار ہستیوں کی تلاش میں رہتے جہاں انہیں ماحول میسر آتااور کوئی عظیم دینی ہستی پر نگاہ پڑتی ان سے وہ اپنی علمی تشنگی دورکرلیتے تھے اسلئے حضرت عبدﷲ شاہ صاحب نے بھی باقاعدہ کسی دینی درسگاہ کی بنیاد ڈالنے کی بجا ئے اسی سابقہ طریقہ کو پسند فرمایاچنانچہ آپ کی طرف سے تعلیم کیلئے آنے و ا لے طلبہ کو ہدایت تھی کہ فلاں درخت کے نیچے آکر سبق پڑھ لیناطلبہ آپ کے حکم کے مطا بق مقررہ جگہ پہنچ جاتے چنانچہ اس طرح کبھی کسی درخت کے نیچے اور کبھی کسی اورجگہ آپ طلبہ کو سبق پڑھاتے آپ سے علمی پیاس بجھانے والے طلبہ کی تعداد تو کافی ہے لیکن آپ کے مشہور تلامذہ میں سے مفسر حقانی حضرت مولانا عبدالحق صاحب حقانی گمتھلوی کا اسم گرامی زیادہ مشہور ہے

دواہم اورمشہورواقعے

ایک مرتبہ آپ کے گھرگمتھلہ میں ایک چور چوری کیلئے آیااور آپ کے ہاں سے چوری کی مگر اس کے بعد اندھاہوگیااس کو راستہ نظر نہیں آیا تو بہ کی تو بینائی لوٹ آئی یہ آپ کی کرامت تھی اس واقعہ کا بڑ اچرچا اور شہرت ہوئی اور لوگوں نے اس سے بڑی عبرت حاصل کی آپ کی زندگی کا یہ واقعہ بہت عبرت انگیز اور ضرب المثل تھا۔گمتھلہ کا تقریباً ہر فرد اس واقعہ کو جانتاتھا شہر اورعلاقہ میں ا س کی وجہ سے آپ کی عظمت کا بڑاشہرہ ہوا۔ آپ ایک جید عالم دین کے طور پر تو مشہور تھے ہی اس کے بعد ایک باخدا اور ولیﷲ کی حیثیت سے بھی مشہور ہوگئے ذٰلک فضل ﷲ یؤتیہ من یّشاء وﷲ ذوالفضل العظیم۔ کسی نے صحیح کہاہے ؎
ایں سعادت بزوربازونیست تانہ بخشدخدائے بخشندہ
گمتھلہ کے ایک صاحب کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ سیر کیلئے جنگل گیا تو میں دیکھ کر حیران ہو گیا کہ حضرت عبدﷲ شاہ صاحب کے جسم کے تمام اعضاء الگ پڑے ہیں دل میں یہ خیال آیا کہ حضرت کو کسی نے شہید کردیاہے فوراً گھر کی طرف لوٹا کہ چار پائی لیجاکر انہیں شہر لے آؤں گھر سے چار پائی اٹھائی ،کسی کو بتائے بغیر جلدی میں گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ حضرت موجود ہیں اور ٹہل رہے ہیں میں نے انتہائی حیرانگی سے پوچھنا چاہا کہ یہ کیا ،تواپنے اشارہ سے مجھے خامو ش کرادیا ا ور فرمایاکہ تم نے جو کچھ دیکھا وہ سب صحیح ہے لیکن جب تک میں زندہ ہو ں تمہیں کسی کو یہ واقعہ بتانے کی اجازت نہیں ہے ورنہ تمہاراحشر اچھانہیں ہوگا چنا نچہ اس شخص نے یہ واقعہ حضرتؒ کی وفات کے بعد لوگوں کو بتادیا۔
ہم عصر شخصیات

جیسا کہ تاریخ پیدائش سے واضح ہے آپ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت شیخ الطائفۃ حضرت حاجی امدادﷲ مہاجر مکی قدس سرہ کے ہم عصر ہیں حضرت مولاناخلیل احمد سہارنپوری رحمۃﷲ علیہ سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی ہے۔

شادی اور اولادامجاد

آپ کی شادی سادات کے خاندان میں موضع اجرارہ ہوئی سسرال کا نسبی تعلق سادات سے تھا اولاد میں دو لڑکے اور تین لڑکیاں تو لد ہوئیں۔ لڑکوں میں جناب محمد حسین شاہ صاحب اورجناب حضرت حکیم محمد غوث شاہ صاحب ہیں آپ نے اپنی لڑکیوں کی شادی اپنے برادرزادوں سے کی جبکہ لڑکوں کی شادی بھی خاندان سادات سے فرمائی ۔
وفات
حضرت موصو ف ٨٠ سا ل کی عمر پاکر اپنے حقیقی مولیٰ سے جاملے انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون۔ گمتھلہ میں ہی آپ کا مزار ہے ،سن ولادت ١٢١٣ھ کے حساب سے ٨٠ سال کی عمر میں وفات کا سن١٢٩٣ ھ بنتا ہے آپ کے صاحبزادہ حضرت حکیم محمد غو ث صاحب جن کی ولادت ١٢٧٥ھ ہے وہ فرماتے ہیں کہ میری عمر حضرت عبداﷲ شاہ کی وفات کے وقت ١٨سال تھی اس سے واضح ہے کہ سن وفات ١٢٩٣ ھ ہی ہے۔
نماز جنازہ

یہ بات گمتھلہ کے رہنے والوں میں تواتر کی حدتک مشہور ہے کہ آپ نے انتقا ل سے پہلے فرمایاتھاکہ تم وفات کے بعد جنازہ تیار کرکے رکھ دینا تم میں سے کوئی بھی جنازہ نہ پڑھائے میرے جنازہ کی نماز پڑھانے کیلئے بروقت خود ہی کوئی شخص پہونچ جائیگا چنانچہ ایسا ہی ہو اعین موقع پر ایک صاحب درویش منش تشریف لائے اور انہوںنے جنازہ پڑھایااور پھر وہ فوراً ہی غائب ہوگئے۔(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بظاہرمعلوم ہوتاہے کوئی ابدال ہوںگے ،کیونکہ مسلمان میت کاجنازہ مسلمانوں پرفرض کفایہ ہے اوریہ تب ہی اداہوگاکہ امام بھی بنی نوع انسان سے ہو،واﷲ اعلم۔

احقرعبدالقدوس ترمذی غفرلہ

No comments:

Post a Comment